احتیاط واجب میں دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کرنا
سوال ۱۴۔ حضرت عالی سے درخواست ہے کہ آپ کے جن مسائل میں احتیاط بیان ہوئی ہیں ان احتیاط میں کس مجتہد کی طرف رجوع کریں؟
جواب : جو مراجع تقلید علمی نشستوں میں مشہور ہیں ان میں سے ایک کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔
جواب : جو مراجع تقلید علمی نشستوں میں مشہور ہیں ان میں سے ایک کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔
جواب : اکثریت کی راٴی کافی نہیں ہے ۔ اگر اعلم ثابت ہو تو اختلافی مسائل میں اس کی تقلید کرنا چاہئے اور اگر ثابت نہ ہو پائے تو لوگوں کو اختیار ہے۔
جواب : اس کو اسی وقت تقلید کرلینا چاہئے اور اس نے جو اعمال اپنے مرجع تقلید کے فتووں کے مطابق انجام دئیے ہیں وہ صحیح ہیں اور جو اعمال اس کے مطابق نہیں ہیں ان کا اعادہ کرے۔
دین کے احکام کو جاننے کے لیے یا انسان درس پڑھے اور اجتہاد کرے اور احکام کو ادلہ چہار گانہ (قرآن، سنت، اجماع و دلیل عقل) سے استنباط و استخراج کرے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو تقلید کرے۔
جواب : جایز ہے اس شرط پر کہ اسکے فتوے اسلامی معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث نہ بنیں ۔
جواب : متجزی کی تقلید میں اشکال ہے ۔
جواب:ایک فقیہ کا فقہ اور اصول فقہ کے علاوہ دوسرے علوم پر مہارت رکھنا دوسرے فقیہ پر ترجیح کا باعث نہیں بنتا لیکن جو علوم احکام کے سمجھنے یا موضوعات کو واضح کرنے میں موثر ہو ں، ترجیح کا باعث ہوتے ہیں۔
جواب:صرف علم اصول میں آگاہی اور اعلمیّت ،اعلم ہونے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اعلم ہونے کی دوسری شرطیں بھی ہیں۔
جواب :الف)مذکورہ تصریح دوسرے مجتہدین کے رسالے پر عمل کرنے سے انکارنہیں کرتی بلکہ ممکن ہے چند جائز التقلید مجتہد ، اجتہاد کے شرایط میں برابر ہوں۔ ہاں اگر کسی کی توضیح المسائل میں یہ لکھا ہوا ہو کہ صرف اسی پر عمل کرنا متعین ہے اور دوسروں کے رسالے پر عمل کرنا جایز نہیں ہے تو اس بات کا مفہوم دوسروں کی نفی کرتا ہے جبکہ میں نے ابھی تک کسی بھی رسالہ کے مقدمہ میں ایسی بات لکھی ہوئی نہیں دیکھی ۔ب) صحیح ہے کہ قدرت بیان کا پایا جانا انسان کی معرفی کا باعث ہے لیکن اگر کوئی شخص بیان کی قدرت نہیں رکھتا جس کے نتیجہ میں اس کا علم لوگوں کے درمیان مجھول رہ جائے اور جستجو کے با وجود بھی اس کا علمی مقام واضح نہ ہوپائے تو ایسی صورت میں لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس کو پہنچوائے ، وہ اس خزانہ کے مانند ہے جو پہچانا نہ گیا ہو اور ایسے خزانے کے بارے میں لوگوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔
جواب : ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
جواب : ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
جواب: ہرانسان تقلید کے سلسلے میں آزاد ہے اعلم مجتہد کی ضرور تحقیق کرے پھر اس کے بعدمجتہد کی تقلید کرے ۔
مجتہدین کے اختلافی مسئلے میں اعلم کی طرف رجوع کرنے کا ایسا مسئلہ ہے جو تقریباً سبھی مجتہدین کرام کی توضیح المسائل میں آیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعلم کی شناخت کرنا بہت مشکل بلکہ شاید محال ہو کیونکہ ہر شخص یا گروہ اپنے مجتہد تقلید کو اعلم بتاتا ہے اوردوسرے کو نہیں ،سوال یہ ہے کہ قدیم کے کچھ مجتہدین کرام تھے جن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ وہ اپنی حیات میں کیا بلکہ مرنے کے بعد بھی آج کے مجتہدین تقلید کے مقابلہ میں اعلم ہیںتو کیا ممکن ہے اس طرح کے مجتہدین کرام (رضوان اللہ علیھم ) جن کو اس دنیا سے گئے کافی زمانہ ہوگیا ہے آج کے زندہ مجتہدین ( جو بحث و مباحثہ اور درس وتدریس میں مشغول ہیںاور جدید علوم و فنون میں بھی دسترس رکھتے ہیں ) کے ہوتے ہوئے بھی گذشتہ مجتہدین اعلم ہوں؟
جواب الف- -: اہل خبرہ سے مراد حوزہ علمیہ اور شہر کے صف اول و دوم کے علماء ہیں جو فقھی مبانی کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔جواب: اگر ایسا شخص لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو اور وہ اہل خبرہ سے پوچھ کر خبردے تو اس کی بات کو مان سکتے ہیں ۔جواب : ہر جگہ کے مشہور علماء عام طور سے اہل خبرہ ہیں ۔جواب: اہل خبرہ کے لئے مجتہد ہونا شرط نہیںہے ۔جواب-:- علم یا اطمینان جس طریقہ سے حاصل ہوجائے وہی کافی ہے ۔جواب: ایسی صورت میں اختیار ہے ۔