طلاق
مسئلہ 2135: جو شخص اپني بيوي کو طلاق دينا چاہے اس کے لئے ضروري ہے کہ عاقل ہو اور بنابر احتياط واجب بالغ ہو، اپنے اختيار سے طلاق دے لہذا جبري طلاق باطل ہے اسي طرح واقعي قصد بھي رکھتا ہو لہذا اگر بطور مذاق صيغہ طلاق جاري کرے تو طلاق صحيح نہيں ہے.
مسئلہ 2135: جو شخص اپني بيوي کو طلاق دينا چاہے اس کے لئے ضروري ہے کہ عاقل ہو اور بنابر احتياط واجب بالغ ہو، اپنے اختيار سے طلاق دے لہذا جبري طلاق باطل ہے اسي طرح واقعي قصد بھي رکھتا ہو لہذا اگر بطور مذاق صيغہ طلاق جاري کرے تو طلاق صحيح نہيں ہے.
مسئلہ 2175: کسي کے حق يا مال پر ظلم کے ذريعہ مسلط ہوجانے کو غصب کہتے ہيں غصب گناہ کبيرہ ہے اخرت ميں اس پر سخت ترين عذاب ہوگا اور دنيا ميں دردناک انجام ہوگا رسول اکرم کي حديث ہے اگر کوئي کسي کي ايک بالشت زمين غصب کرے تو قيامت ميں اتني زمين اپنے ساتوں طبقے سميت بطور طوق اس شخص کے گردن ميں ڈال دي جائے گي.
مسئلہ 2193: جس کو کوئي ايسا گم شدہ مال مل جائے جس پرکوئي ايسي علامت نہ ہو جس کي بناپر مالک کو معلوم کرسکے، مثلا سو روپے کا نوٹ يا کوئي سونے کا سکہ پڑا ہو امل جائے، تو احتياط واجب کي بناپر اس کو مالک کي طرف سے صدقہ کردے اور اگر وہ خود مستحق ہے تو اپنے لئے اٹھالے ليکن اگر مال اچھا خاصہ ہو تو احتياط يہ ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے.
مسئلہ 2212: حلال گوشت جانور کو درج ذيل شرائط کے ساتھ ذبح کياجائے تو اس کا گوشت کھانا حلال ہے خواہ وہ جانور پالتو ہو يا جنگليالبتہ جس جانور کے ساتھ کسي انسان نے وطي کرلي ہو تو اس کا گوشت بلکہ اس کے بچہ کا گوشت بھي کھانا حرام ہے اسي طرح نجاست کھانے والے جانور کا گوشت بھي حرام ہے ہاں اگر نجاست کھانے والے جانور کو شريعت کے حکم کے مطابق معين مدت تک پاک غذا کھلائيں تو اس گوشت کھانا حلال ہے.
مسئلہ 2256: گائے، بھيڑ، پالتو اونٹ، نيل گائے، جنگلي بھيڑ، جنگلي بکري، جنگلي گدھے کا گوشت حلال ہيں ليکن گھوڑے ، خچر، گدھے کا گوشت مکروہ ہے درندوں کا گوشت عموما اسي طرح ہاتھي، خرگوش، حشرات الارض کا گوشت حرام ہے.
مسئلہ 2272: خدا کے لئے کسي اچھے کام کرنے کي ذمہ داري کو اپنے اور پرلينا يا جس کا نہ کرنا بہتر ہو اس کے ترک کو اپنے ذمے لے لينے کو نذر کہاجاتاہے.
null
مسئلہ 2305: جس چيز کو وقف کياجاتاہے وہ وقف کرنے والے کي ملکيت سے نکل جاتي ہے نہ تو وقف کرنے والا اور نہ دوسرا کوئي اس کو بيچ سکتاہے نہ ہي کسي کو بخش سکتاہے اور نہ کوئي اس کا وارث ہوسکتاہے ہاں مسئلہ 1786 کے مطابق بعض حالات ميں اس کو بيچا جاسکتاہے.
مسئلہ نمبر 2323: انسان کا اپنے موت کے بعد کچھ کاموں کے انجام دہي کيلئے کہنے کو وصيت کہاجاتاہے اس کو وصيت عہديہ کہتے ہيں جيسے کفن، محل دفن ارو ديگر مراسم کے لئے وصيت کي جاتي ہے جيسے کفن، محل دفن اور ديگر مراسم کے لئے وصيت کي جاتي ہے يا انسان يہ کہے يہ مرسے مرنے کے بعد ميرے اموال يا ميري جائيداد ميں سے کوئي چيز کسي کي ملکيت ميں ديدي جائے (اس کو وصيت تمليکيہ کہاجاتاہے) اپني اولاد کے لئے سرپرست معين کرجانا ايک وصيت ہے.
مسئلہ 2352 رشتہ داري کي بنا ء پر بناء ميراث پانے والوں کے تين قسميں ہيں1 ماں، باپ اولاد اور اولاد نہ ہوں تو ان کي اولاد اسي طرح چاہے جتنے نيچے تک پہونچ جائيں ليکن يہ ملحوظ رہے کو جو ميت سے نزديکتر ہو گاو ہي ميراث پائے گا اور جب تک اس طبقہ کا ايک فرد بھي ہوگا دوسرے طبقہ والوں کو ميراث نہيں ملے گي2 دادا، دادي، نانا، ناني (اور ان کے اوپر کے اوپر والے جہاں تک بھي ہو) خواہ پدر ہو يا مادري اسي طرح بھائي، بہن اور اگر بھائي بہن نہ ہوں تو ان کي اولاد در اولاد (جہان تک نيچے سلسلہ جائے) ان ميں سے جو بہت سے زيادہ نزديک ہوگا وہ ميراث پائيگا اور جب تک اس دوسرے طبقہ کا ايک فرد بھي موجود ہو تيرے طبقہ والوں کو ميراث نہيں ملے گي.3 چچا، پھوپھي، ماموں، خالہ اور جوان کے اوپر ہوں اور ان کي اولاد در اولاد چاہے جہان تک بھي نيچے چلي جائے.جوسب سے نزديک ہے ميراث اسي کو ملے گي اور جب تک چچا، پھوپي، مامو، خالہ ميں سے ايک فرد بھي موجود ہو تو ان کي اولادوں کو ميراث نہيں ملے گي اور جب تک ان کي اولاد زندہ ہيں اولاد کي اولاد کو کچھ نہيں ملے گا صرف ايک مسئلہ مستشي ہے کہ اگر ميت کا باپ کي طرف سے چچا ہو اور حقيقي چچا کا بيٹا ہو تو ميراث حقيقي چچا کے بيٹے کو ملے گي اور باپ کي طرف سے نزديک ہونے کے با وجود ميراث نہيں پائے گا.
مسئلہ 2411: مسلمانوں کے شہروں يا سرحدوں پر اگر دشمن حملہ کرديں تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ جان، مال يا اور جس طريقہ سے ممکن ہو اس کا دفاع کريں اور اس دفاع ميں حاکم شرع کي اجازت بھي ضروري نہيں ہے البتہ نظم و ترتيب اور دفاعي پروگرام کے لئے امکاني صورت ميں حاکم شرع کي صوا بديد کے مطابق ايک يا کئي افرير معين کردئيے جائيں جو تجربہ کار اور قابل اعتماد ہوں.
مسئلہ 2414: ہر بالغ ، عاقل انسان پر درج ذيل شرائط کے ساتھ امر بالمعروف و نہي عن المنکر واجب ہے.1 امر و نہي کرنيوالے کو يہ يقين ہو کہ جس کو امر يا نہي کررہاہے و ہ فعل حرام يا ترک واجب ميں مشغول ہے.2 يہ احتمال ہو کہ امر و نہي کا اثر بھي ہوگا چاہے وہ اثر فوري ہو يا دير ميں ہو، مکمل اثر ہو يا ناقص ہو، لہذا اگر معلوم ہو کہ کوئي بھي اثر نہ ہوگا تو امر و نہي واجب نہيں ہے.3 امر و نہي ميں کوئي مفسدہ يا ضرر نہ ہو بنابرايں اگر علم ہو يا خوف ہو کہ امر و نہي سے قابل توجہ مالي يا جاني يا ابروئي ضرر اس کو يا بعض مومنين کو پہونچے گا تو امر و نہي واجب نہيں ہے ليکن اگر معروف و منکر ايسے امور ميں سي ہو کہ شارع مقدس نے اس کو بہت زيادہ اہميت دي ہو جيسے قران و اسلام کے ضروري احکام کي حفاظت تو پھر ضرر کا خيال نہيں کرنا چاہئے بلکہ جان و مال ديگر بھي اس کے لئے حفاظت کے لئے کوشش کرے.