اگر وارث صرف دادا يا صرف دادي يا صرف نانا يا ناني ہو
مسئلہ 2373:اگر وارث صرف دادا يا صرف دادي يا صرف نانا يا صرف ناني ہو تو پورا مال اسي کو ملے گا اور دادا کے ہوتے ہوئے پر دادا کو ميراث نہيں ملے گي.
مسئلہ 2373:اگر وارث صرف دادا يا صرف دادي يا صرف نانا يا صرف ناني ہو تو پورا مال اسي کو ملے گا اور دادا کے ہوتے ہوئے پر دادا کو ميراث نہيں ملے گي.
مسئلہ 2374:اگرميت کے ورثہ صرف دادا اور دادي ہوں تو مال کے تين حصے کرکے ايک دادي کو اور دو دادا کو دياجائے گا ليکن اگر ميت کے وارث صرف نانا اور ناني ہوں تو انہيں مال برابر برابر تقسيم ہوگا.
مسئلہ 2375:اگر ميت کا ورثہ صرف دادا (يا دادي) اور نانا (يا ناني) ہو تو مال کے تين حصہ کرکے دو دادا يا دادي اور ايک حصہ نانا يا ناني کو ديديا جائے گا.
مسئلہ 2376: اگر ميت کے وارث دادا، نانا ، ناني ہوں ہوں تو مال کے تين حصے کرکے دو حصے دادا، دادي کو دياجائے گا جواپس ميں اس طرح تقسيم کريں گے کہ دادا کو دوگنا اور دادي کو ايک حصہ ملے گا اور ايک حصہ نانا، ناني کو ملے گا جس کو يہ لوگ اپس ميں برابر تقسيم کريں گے.
مسئلہ ۱ : کوئی بھی مسلمان اصول دین میں تقلید نہیں کرسکتا۔ بلکہ اصول دین کو ”اپنی حسب حیثیت“ دلیل سے جاننا چاہئے۔ لیکن فروع دین میں (یعنی عملی احکام و دستور میں) اگر خود مجتہد ہے (یعنی احکام الہی کو دلیل سے خود حاصل کرسکتا ہے) تو اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرے۔ اور اگر خود مجتہد نہیں ہے تو چاہئے کہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کرے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے لوگ جس چیز میں مہارت نہیں رکھتے تو اس چیز کے ماہر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ احتیاط پر بھی عمل کرسکتا ہے یعنی اپنے اعمال کو اس طرح بجالائے کہ اس کو یقین ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے۔ مثلا اگر کسی چیز کو بعض مجتہدین حرام اور بعض مباح جانتے ہوںتو اس کو ترک کردے اور اگر بعض مجتہدین کسی کام کو واجب اور بعض مستحب کہتے ہوں تو اس کو لازما بجالائے۔ لیکن چونکہ احتیاط پر عمل کرنا مشکل ہے، اور فقہی مسائل میں وسیع اطلاعات کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی لئے زیادہ تر لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ مجتہدین کی طرف رجوع کریں اور ان ہی کی تقلید کریں ۔قرآن اور روايات کي رو سے عبادات اور شرعي واجبات کو انجام دينے کا معيار بلوغ شرعي (حکم شريعت کے مطابق بالغ هونا) هے، بلوغ شرعي کي ايک نشاني يه هے که لڑکا قمري اعتبار سے 15 سال کا هو کر سولهويں ميں اور لڑکي 9 سال کي هوکر دسويں سال ميں داخل هوجائے،هر ميلادي سال ميں قمري سال سے 11 دن زياده هوتے هيں اس فرق کو مد نظر رکھتے هوئے میلادي سال کے اعتبار سے لڑکے 14 سال 6 مهينه اور 20 دن اور لڑکياں 8 سال 8 مهينے 25 دن ميں بالغ هوتي هيں. بلوغ (بالغ هونے) کي دوسري نشانيوں کو جاننے کے لئے صفحه نمبر 377 کامطالعه فرمائيں.
مسئلہ ۱ : کوئی بھی مسلمان اصول دین میں تقلید نہیں کرسکتا۔ بلکہ اصول دین کو ”اپنی حسب حیثیت“ دلیل سے جاننا چاہئے۔ لیکن فروع دین میں (یعنی عملی احکام و دستور میں) اگر خود مجتہد ہے (یعنی احکام الہی کو دلیل سے خود حاصل کرسکتا ہے) تو اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرے۔ اور اگر خود مجتہد نہیں ہے تو چاہئے کہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کرے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے لوگ جس چیز میں مہارت نہیں رکھتے تو اس چیز کے ماہر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ احتیاط پر بھی عمل کرسکتا ہے یعنی اپنے اعمال کو اس طرح بجالائے کہ اس کو یقین ہوجائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے۔ مثلا اگر کسی چیز کو بعض مجتہدین حرام اور بعض مباح جانتے ہوںتو اس کو ترک کردے اور اگر بعض مجتہدین کسی کام کو واجب اور بعض مستحب کہتے ہوں تو اس کو لازما بجالائے۔ لیکن چونکہ احتیاط پر عمل کرنا مشکل ہے، اور فقہی مسائل میں وسیع اطلاعات کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی لئے زیادہ تر لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ مجتہدین کی طرف رجوع کریں اور ان ہی کی تقلید کریں ۔قرآن اور روايات کي رو سے عبادات اور شرعي واجبات کو انجام دينے کا معيار بلوغ شرعي (حکم شريعت کے مطابق بالغ هونا) هے، بلوغ شرعي کي ايک نشاني يه هے که لڑکا قمري اعتبار سے 15 سال کا هو کر سولهويں ميں اور لڑکي 9 سال کي هوکر دسويں سال ميں داخل هوجائے،هر ميلادي سال ميں قمري سال سے 11 دن زياده هوتے هيں اس فرق کو مد نظر رکھتے هوئے میلادي سال کے اعتبار سے لڑکے 14 سال 6 مهينه اور 20 دن اور لڑکياں 8 سال 8 مهينے 25 دن ميں بالغ هوتي هيں. بلوغ (بالغ هونے) کي دوسري نشانيوں کو جاننے کے لئے صفحه نمبر 377 کامطالعه فرمائيں.
مسلہ 2: احکام ميں تقليد کا مطلب يہ ہے کہ اپنے عمل کو مجتہد کے حکم کے مطابق بجالائے يعني اپنے اعمال کو مجتہد کے دستور کا تابع کردے.
مسئلہ ۳: ایسے مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے جس میں مندرجہ ذیل صفات موجود ہوں : مرد ہو، بالغ ہو، عاقل ہو، شیعہ اثناعشری ہو، حلال زادہ ہو اور اسی طرح سے احتیاط واجب کی بنا پر عادل اور زندہ ہو۔عادل سے مراد وہ شخص ہے کہ جس کے باطن میں ایسا خوف خدا ہو جو اسے گناہ کبیرہ سے اور گناہ صغیرہ پر اصرار کرنے سے روکے۔
مسئلہ 4: جن مسائل ميں مجتہدين کے درميان اختلاف نظر ہو ان مسائل ميں اعلم کي تقليد کرنا چاہئے.
مسئلہ 5: مجتہد اور اعلم کي تين طريقوں سے شناخت کي جاسکتي ہے.1 انسان خود اہل علم ہو اور مجتہد اعلم کي شناخت کرسکتا ہو.2 اہل علم ميں سے دو عادل کسي کے اعلم ہونے کي خبر ديں. بشرطيکہ دو دوسرے عالم ان کے خلاف گواہي نہ ديں.3 اہل علم اور علمي محفلوں ميں اتنا مشہور ہو کہ انسان کو اس کے اعلم ہونے کا يقين ہوجائے.اعلم وه هے که جو شرعي منابع سے احکام کو سمجھنے (حاصل کرنے) ميں دوسرے سے زياده قدرت رکھتا هو.
مسئلہ 6: اگر قطعي ويقيني طور سے اعلم کي شناخت ممکن نہ ہوسکے تو احتياط يہ ہے کہ ايسے شخص کي تقليد کرے جس کے اعلم ہونے کا گمان رکھتا ہو اورا گر چند مجتہدين کے درميان شک ہو اور کسي کو ترجيح نہ دے سکے تو ان ميں سے جس کي چاہے تقليد کرسکتاہے.
مسئلہ 7: مجتہد کا فتوي معلوم کرنے کے چند طريقے ہيں:1 خود مجتہد سے سنے يا اس کے دستخط کو (تحريرکي صورت ميں) ديکھے2 ايسے رسالہ عميلہ ميں ديکھے جو قابل اطمينان ہو3 ايسے شخص سے سنے جو قابل اعتماد ہو4 لوگوں کے درميان اس طرح مشہور ہو کہ باعث اطمينان ہو.