مساقات
مسئلہ 1897: اگرپھلدار درختوں کو معين مدت کے لئے کسي کے سپرد اسلئے کياجائے کہ وہ درختوں کي ديکھ بھال کرے اور ان کو پاني و غيرہ دے اور اس کا عوض باغ کے پھلوں کا ايک حصہ اس کو دياجائے تو اس کو مساقات کہتے ہيں.
مسئلہ 1897: اگرپھلدار درختوں کو معين مدت کے لئے کسي کے سپرد اسلئے کياجائے کہ وہ درختوں کي ديکھ بھال کرے اور ان کو پاني و غيرہ دے اور اس کا عوض باغ کے پھلوں کا ايک حصہ اس کو دياجائے تو اس کو مساقات کہتے ہيں.
مسئلہ 1908: مساقات ميں کام کرنے والے متعدد بھي ہوسکتے ہيں مثلا مالک باغ کو چند ادميوں کے حوالہ کردے اور ان سے مساقات کي قرارداد کرلے.
مسئلہ 1906:اگر پتہ چل جائے کہ مساقات کا معاملہ باطل تھا تو پھل مالک کے ہونگے ليکن ابپاشي اور ديگر کاموں کي جو اجرت عموما ہوتي ہے وہ باغ کي نگہداشت کرنے والے کو دينا ہوگي.
مسئلہ 1898:پھلدار درختوں کے علاوہ پھول دينے والے پودوں والے (جن سے گلاب و غيرہ حاصل کيا جائے ) اور مہندي و بيري کے درختوں(جن کے پتوں سے فائدہ حاصل کياجاتاہے)اور گوند دينے والے يا رس نکالے جانيوالے درختوں کے بھي مساقات صحيح ہےالبتہ جن درختوں سے اس قسم کا کوئي بھي فائدہ نہ ہو ان کي مساقات صحيح نہيں ہے.
مسئلہ 1901: خربوزہ، تربوز اور ککڑي و غيرہ کي بيلوں کے بارے ميں اگر واضح قرارداد کريں اور توڑنے کي تعداد اور ہر ايک کے حصہ کو مشخص کرديں تو صحيح ہے اگر چہ اس کو مساقات نہيں کہيں گے.
مسئلہ 1900: مساقات کے لئے چند شرطيں ضروري ہيں.1 مالک اور درختوں کو مساقات پرلينے والا دونوں بالغ و عاقل ہوں.2 کسي نے ان کو اس کام پر مجبور نہ کيا ہو.3اپنے اموال ميں تصرف کرنے سے روکے نہ گئے ہو.4 مساقات کي مدت معلوم ہو بلکہ اگر ابتدا کو معيں کردے اور انتہا وہ موقع قرار ديں جب سال کا حاصل ان کے ہاتھ لگے بت بھي صحيح ہے.5 ہر ايک کا حصہ بطرو نصف يا ثلث و غيرہ ہو (يعني مشاع ہو) بنابرايں اگر قرارداد اس طرح کريں کہ ايک سن پھل مالک کا ہوگا اور باقي کام کرنے والے کا تو معاملہ باطل ہے.6 پھل کے ظاہر ہونے سے پہلے مساقات کي قرارداد کرليں اور اگر پھلوں کے ظاہر ہونے کے بعد اور پکنے سے پہلے قرارداد کريں اور ابپاشي يا دو اچھڑ کنے کا کام باقي ہو جس کا پھلوں کے لئے کرنا ضروري ہوتاہے تو مساقات صحيح ہے ور نہ محل اشکال ہے اور اگر صرف پھلوں7 کو توڑنے اور نگراني جيسے کام باقي ہو تو قرارداد تو صحيح ہے مگر مساقات باطل ہے.
مسئلہ 1903: مساقات کا معاملہ کرنے والے ايکدوسرے کي رضامندي سے معاملہ ختم کرسکتے ہيں اسي طرح اگر قرارداد کے ضمن ميں دونوں کو يا کسي ايک کو معاملہ توڑنے کا اختيار ديا گيا ہو تو وہ قرارداد کے مطابق معاملہ کو ختم کرسکتے ہيں بلکہ اگر مساقات کي قرارداد ميں کوئي شرط کي گئي ہو اور اس پر عمل نہ کياجائے نيز جس کے فائدے کے لئے شرط ہو وہ دوسرے کو اس شرط پر عمل کرنے کے لئے مجبور کر سکے تو معاملہ کو ختم کرسکتا ہے.
مسئلہ 1897:اگرپھلدار درختوں کو معين مدت کے لئے کسي کے سپرد اسلئے کياجائے کہ وہ درختوں کي ديکھ بھال کرے اور ان کو پاني و غيرہ دے اور اس کا عوض باغ کے پھلوں کا ايک حصہ اس کو دياجائے تو اس کو مساقات کہتے ہيں.
مسئلہ 1428: مستي کي حالت ميں چھوٹے ہوئے روزوں کي قضا لازم ہے چاہے مست کرنے والي چيز کو اشتباہا يا علاج کے لئے کھا يا ہو بلکہ اگر روزے کي نيت پہلے کرلي ہو پھر مستي کے عالم ميں روزہ کو تمام کرے تو بناء بر احتياط واجب قضا کرے.
مسئلہ 418 : مستحاضہ کو ماہ رمضان کا روزہ رکھنا چاہئے اور روزہ اس وقت صحيح ہوگا جب وہ اس رات کي نماز مغرب و عشاء کے لئے غسل کرے جس کي صبح کو روزہ رکھنا چاہتي ہے اور جس دن روزہ رکھے بناء براحتياط واجب اس دن کے غسلوں کو بھي بجالائے.
مسئلہ 405 : استحاضہ قلیلہ میں احتیاط واجب کی بناء بر عورت کو ہر نماز کے لئے ایک وضو کرنا چاہئے اور واجب ہے کہ خون کو دوسری جگہوں تک سرایت کرنے سے روکے۔ لیکن روئی اور رومال کا بدلنا واجب نہیں ہے جبکہ احتیاط مستحب ہے کہ بدل لے اور استحاضہ کثیرہ میں تین غسل کرنا واجب ہے ایک نماز صبح کے لئے، ایک نماز ظہر و عصر کے لئے اور ایک نماز مغرب و عشاء کے لئے اور ان نمازوں کو (یعنی ظہر و عصر او رمغرب و عشاء کو ملا کر پڑھے او راحتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے علاوہ ہر نماز کے لئے وضو (بھی) کرے۔چاہے غسل سے پہلے یاغسل کے بعد۔
مسئلہ 423 : مستحاضہ قضا نمازيں بھي پڑھ سکتي ہے ليکن ہر نماز کے لئے بناء براحتياط واجب وضو کرنا ہوگا البتہ روزانہ کے نوافل پڑھنے کے لئے وہي نماز واجب والا وضو کافي ہے اسي طرح پوري نماز شب کے لئے ايک وضو کافي ہےبشرطيکہ نماز شب کو پے در پے بجالائے.