طلاق کی عدّت کے دوران عقد کا صیغہ جاری کرنا (نکاح کرنا)
۔ایک دوشیزہ (کنواری لڑکی) ایک جوان لڑکے کے حبالہ عقد میں آجاتی ہے، البتہ یہ بات سوچتے ہوئے کہ مذہبی گھرانہ ہے اور آنے جانے میں مشکل پیش نہ آئے، اس وجہ سے، نکاح کردیا تھا، نکاح کے بعد جب یہ دونوں منگیتر خلوت کرتے تھے تو دبر (پشت کی جانب) میں مجامعت کرتے تھے، کچھ عرصہ کے بعد اُن میں اختلاف ہوا اور طلاق ہوگئی لڑکی چونکہ شرعی مسائل سے ناواقف ہونے کی وجہ سے سوچتی تھی کہ اس قسم کی مقاربت کرنے میں عِدّت نہیں ہوتی ہے، افسوس ، اسی وجہ سے عدّت کے دوران اس کی دوسرے شخص سے، شادی کردی جاتی ہے ، چند سال ازدواجی زندگی گذارنے اور بچہ ہونے کے بعد مسئلہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اس سلسلہ میں شریعت کا حکم بیان فرمائیں ؟
جواب:۔مفروضہ مسئلہ میں ، احتیاط واجب یہ ہے کہ عدّت گذارنے کے بعد ،دوبارہ نکاح پڑھوائے اور اس طرح، ہمیشہ کیلئے حرام نہیں ہوگی .
عمارت کے عین میں زوجہ کو میراث ملنے پر فقہی دلیل
یہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ تفسیری کتابوں میں سورہٴ نساء کی ۱۲ویں آیت کی بہ طور مطلق تفسیر کی گئی ہے، اس صورت میں زوجہ کے لئے عمارت کا فقط فضائی حصہ اور درختوں کی قیمت کی میراث کے سلسلے میں فقہی دلیل کیا ہے؟
جواب: اس مسئلہ کی دلیل وہ روایتیں ہیں جو ائمہ معصومین ٪ سے وارد ہوئی ہیں جن سے قرآنی کی آیات تخصیص ہوجاتی ہے اور آیات میراث کی تخصیص فقط اس مورد میں منحصر نہیں ہے بلکہ یہ مطلب شیعہ اور اہل سنت کی فقہ میں متعدد مقامات پر دیکھا جاسکتا ہے ، مزید اطلاع کے لئے جواہر الکلام کی ۳۹ جلد کا مطالعہ کیا جائے۔
جواب۔ جب بھی کھیلونوں کی شکل میں ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن بہتر ہے ہے کہ انکو زینت کے لئے استعمال نہ کیا جائے
یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ جاندار کا مجسمہ بنانا مجتہدین کرام کے اجماع کے مطابق حرام ہے پھر کیوں ہمارے اسلامی ملک میں مجسمہ بناتے ہیں اور شہروں کے چوراہوں پر لگاتے ہیں نیز پارکوں کو ان سے مزین کرتے ہیں مجسمہ بناے میں بیت المال خرچ کرتے ہیں آیا حرام ہونے کا حکم اپنی حالت پر باقی ہے یا اس پر ثانوی حکم لگایا جاتا ہے ؟
جواب۔ مجسمہ بنانے میں اشکال ہے اور مناسب ہے کہ اس طرح کے مجسمہ کو محفوظ رکھنے سے پرہیز کیا جائے
مسجد کے لئے بنائے گئے طبقوں کا حکم
یہ مقرر ہوا ہے کہ ہمارے شہر کی مسجد کی عمارت کو گراگر اس کی جگہ بڑی اور خوبصورت مسجد بنائی جائے کیونکہ اس مسجد کی مفید عمر پوری ہوچکی ہے لہٰذا ذیل میں مندرج سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ کیا سابقہ مسجد کا حکم نئی مسجد کی نیچے کی اور اوپر کی منزل کے اوپر جاری ہے؟ کیا جدید مسجد کی اوپری منزل کے حصّے کوکہ جو قدیم مسجد کی جگہ بنایا گیا ہے نئے استفادہ جیسے کتب خانہ، درس وتدریس کے لئے مخصوص کیا جاسکتا ہے؟۲۔ جدید مسجد کے لئے ضروری ہے کہ قدیم مسجد کے شبستان میں سے دیوار اٹھانے، یا ستون اکھاڑنے یا گلدستہ اذا ن بنانے، یا خطبہ کے لئے ممبر بنانے کے لئے، تھوڑا حصہ لیا جائے، کیا یہ تصرف جائز ہے؟
مسجد کے احکام اس عمارت پر جاری ہوںگے جو قدیم، مسجد کی زمین کے اوپر بنائی گئی ہو، لیکن اگر اس کی زمین بڑھائی گئی ہو تو وہ وقف کے جدید صیغہ کے تابع ہوگی؛ لیکن کتب خانہ وغیرہ کا بنانا اگر نمازیوں کے مزاحمت کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں ہے ۔اس طرح کے تصرفات میں کیونکہ نمازیوں کے لئے مزاحمت کا سبب نہیں ہیں، کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسجد کے لئے بنائے گئے طبقوں کا حکم
یہ مقرر ہوا ہے کہ ہمارے شہر کی مسجد کی عمارت کو گراگر اس کی جگہ بڑی اور خوبصورت مسجد بنائی جائے کیونکہ اس مسجد کی مفید عمر پوری ہوچکی ہے لہٰذا ذیل میں مندرج سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ کیا سابقہ مسجد کا حکم نئی مسجد کی نیچے کی اور اوپر کی منزل کے اوپر جاری ہے؟ کیا جدید مسجد کی اوپری منزل کے حصّے کوکہ جو قدیم مسجد کی جگہ بنایا گیا ہے نئے استفادہ جیسے کتب خانہ، درس وتدریس کے لئے مخصوص کیا جاسکتا ہے؟جدید مسجد کے لئے ضروری ہے کہ قدیم مسجد کے شبستان میں سے دیوار اٹھانے، یا ستون اکھاڑنے یا گلدستہ اذا ن بنانے، یا خطبہ کے لئے ممبر بنانے کے لئے، تھوڑا حصہ لیا جائے، کیا یہ تصرف جائز ہے؟
مسجد کے احکام اس عمارت پر جاری ہوںگے جو قدیم، مسجد کی زمین کے اوپر بنائی گئی ہو، لیکن اگر اس کی زمین بڑھائی گئی ہو تو وہ وقف کے جدید صیغہ کے تابع ہوگی؛ لیکن کتب خانہ وغیرہ کا بنانا اگر نمازیوں کے مزاحمت کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں ہے ۔اس طرح کے تصرفات میں کیونکہ نمازیوں کے لئے مزاحمت کا سبب نہیں ہیں، کوئی حرج نہیں ہے ۔
خواتین کا مردانہ لباس اور مردوں کا زنانہ لباس پہنا
یہ فرمایا گیاہے کہ عورت کے لئے مرد کا مخصوص لباس او رمردوں کے لئے مخصوص زنانہ لباس ،پہنّا ، محل اشکال ہے ، اس سے کس قسم کا لباس مراد ہے برائے مہر بانی وضاحت فرمائیے؟
جواب : وہ لباس مراد ہے جسے عام لوگ زنانہ لباس کہتے ہیں ( لیکن اگرگناہ کا باعث نہیں ہے تو حرام نہیں ہے )
شعر کی صورت میں قرآن کا ترجمہ
یہ فرمائیں کہ اگر کوئی ادارہ قرآن کو فروغ دینے اور نظم و شعر کے عمیق اثرات کے پیش نظر اسے طبع کرنا چاہے تو آپ کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
اگر بقیہ اشعار بھی اس جیسے یا اس سے بہتر ہوں اور اس کے مضامین کسی علمی گروہ کے ذریعہ چیک ہونے کے بعد اس پر لکھے گیے مقدمہ میں یہ بات لکھی جائے کہ یہ ترجمہ آزاد ہے بلکہ ترجمانی ہے تو اس کی طباعت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شعر کی صورت میں قرآن کا ترجمہ
یہ فرمائیں کہ اگر کوئی ادارہ قرآن کو فروغ دینے اور نظم و شعر کے عمیق اثرات کے پیش نظر اسے طبع کرنا چاہے تو آپ کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
اگر بقیہ اشعار بھی اس جیسے یا اس سے بہتر ہوں اور اس کے مضامین کسی علمی گروہ کے ذریعہ چیک ہونے کے بعد اس پر لکھے گیے مقدمہ میں یہ بات لکھی جائے کہ یہ ترجمہ آزاد ہے بلکہ ترجمانی ہے تو اس کی طباعت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حکم اپنے موضوع کے تابع ہوتا یے ، کی وضاحت
یہ جو کہتے ہیں کہ حکم کا دارو مدار موضوع پر ہوتا ہے، اس کے کیا معنا ہیں؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلا شراب جب تک شراب ہے نجس اور حرام ہے مگر جب وہ سرکہ بن گئی تو پاک اور حلال ہو گئی۔ اسی طرح سے دوسرے تمام شرعی احکام ان کے موضوعات کے تابع ہوتے ہیں، موضوعات کے بدلنے کے ساتھ ہی ممکن ہے احکام بدل جائیں۔