مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

معصومین علیہم السلام کی زندگی کو فلموں میں دکھانے کے لئے حدود کی رعایت کرنا

فیلم، ڈرامے اور سیریل کے ذریعہ معصومین علیہم السلام کی زندگی کو پیش کرنے کے لئے فقہی حدود کا خیال رکھتے ہوئے، حضور کیا راہ حل بیان فرماتے ہیں؟

اس کا بہترین راہ حل یہ ہے کہ معصومین علیہم السلام کو مبہم صورت میں یا نور کے ہالہ کے درمیان دکھایا جائے تاکہ اس رُخ سے مشکل پیدا نہ ہو، لیکن غیرمعصومین کے سلسلے میں اگر ضروری احترام کا لحاظ رکھا جائے تو ان کو دکھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

دسته‌ها: ٹیلی ویژن

طرح طرح کی فیلم بنانے میں اسلام کا نظریہ

فیلموں کے سلسلے میں ذیل میں دیئے گئے سوالوں کے جواب مرحمت فرمائیں:۱۔ خیالی، ڈراؤنی، خشونت آمیز، کمیڈی اور سیکسی فیلم بنانے کا اسلام کا کیا حکم ہے؟۲۔ فیلم میں نامحرم مرد اور عورت کے احساسات کو بیان کرنا کیساہے؟۳۔ اگر کوئی دوسرے کی بیوی یا شوہر کا کردار ادا کرے، جبکہ ان کے درمیان کوئی محرمیت بھی نہ ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟۴۔ کیا فیلم میں مصنوعی بالوں کی وگ کا مردوں سے چھپانا واجب ہے اور اس کا حکم طبیعی بالوںکا حکم ہے؟۵۔ اہل کتاب اور کافر عورتوں کو دیکھنے میں کیا فرق ہے؟۶۔ کمیڈی(ہنسنے ہنسانے والی فیلم) کو دیکھنے کا کیا حکم ہے کہ جس میں فقط ہنسانے کا ہی پہلو ہوتا ہے؟۷۔ فیلموں میں آواز کی تقلید کرنے کا کیا حکم ہے، جیسے کوئی مرد کسی عورت کو آواز کی تقلید کرے یا اس کے برعکس؟

بد آموز اور ضرر پہنچانے والی فلمیں جیسے سیکسی اور ڈراؤنی فلمیں وغیرہ حرام ہیں، لیکن درس دینے والی فلمیں یا کم از کم بغیر مفسدہ کے سرگرم کرنے والی فلمیں نہ یہ کہ ان کے دیکھنے میںاشکال ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ مفید اور موٴثر اور اسلامی مقاصد کی ترقی کا سبب بھی ہوتی ہیں اور کسی مرد کا بغیر محرمیت کے کسی عورت کے شوہر کے کردار کو ادا کرنا اس صورت میں کہ جب اس میں شریعت کے خلاف کوئی چیز نہ ہو تو اس میں ذاتاً کوئی اشکال نہیں ہے، اور مخالف جنس کی آواز کی تقلید کرنے کا بھی یہی حکم ہے ۔

دسته‌ها: ٹیلی ویژن

بنیادی قانون میں ”مبانی اسلام میں اخلاق “ کی عبارت کی تشریح

اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی دفعہ نمبر ۲۴ کو مدنظررکھتے ہوئے کہ جس میں اس طرح بیان ہوا ہے: ”نشریات اور مطبوعات، مطالب کو بیان کرنے میں آزاد ہیں، مگر یہ کہ اس سے اسلام کے مبانی یا عمومی حقوق میں خلل واقع ہو“ لہٰذا حضور فرمائیں:الف) ”اخلال“ اور ”اسلام کے مبانی“ سے کیا مراد ہے؟ کیا اسلام کے مبانی کے معنی اسلام کے بنیادی احکام ہیں، یا اس سے ضروریات دینی یا ضروریات فقہی مراد ہے، یا اس کے کوئی اور معنی ہیں؟ب) کیا سوال ایجاد کرنا یا مسائل اسلامی سے جدید چیز نکالنا اخلال شمار ہوتا ہے؟ج) علمی اور تخصصی رسالوں میں سوال ایجاد کرنے یا حدید چیز کے نکالنے میں اور ان کا عمومی نشریات میں نشر میں کوئی فرق ہے؟

جواب: الف :”اسلام کے مبانی“ سے مراد دین کے ضروری مسائل ہیں چاہے وہ اعتقادی مسائل ہوں جیسے توحید، معاد، قیامت عصمت انبیاء وآئمہ علیہم السلام اور اسی کے مانند دوسری چیزیں، چاہے فروع دین اور اسلام کے قوانین اور احکام ہوں، اور چاہے اخلاقی اور اجتماعی مسائل ہوں ۔اور ”اخلال“ سے مراد ہر وہ کام ہے جو مذکورہ مبانی کی تضعیف یا ان میں شک وتردید ایجاد کرنے کا سبب ہو، چاہے وہ مقالہ لکھنے کی وجہ سے یا داستان، یا تصویر بنانے کے ذریعہ ہو یا کارٹون یا ان کے علاوہ کسی اور چیز سے ۔جواب:ب : اگر سوال پیدا کرنے سے مراد اس کا جواب حاصل کرنا ہے تو اخلال نہیں ہے، لیکن اگر اس سے مراد افکار عمومی میں شبھہ ایجاد کرنا ہو تو اخلال شمار ہوگا اور جدید چیز نکالنے سے مراد، اگر فقط ایک علمی احتمال کو بیان کرنا ہو تاکہ اس پر تحقیق اور مطالعہ کیا جائے تو اخلال نہیں ہے؛ لیکن اگر قطعی طور سے اس پر تکیہ کیا جائے یا اس کو اس طرح نشر کیا جائے کہ جو اسلام کے ضروریات کے مخالف ہو تو مبانی میں اخلال شمار ہوگا۔جواب: ج : بے شک ان دونوں میں فرق ہے، عمومی نشریات میں نشر کرنا ممکن ہے کہ مبانی اسلام میں اخلال کی صورت اختیار کرلے، لیکن خصوصی نشریات میں یہ صورت پیدا نہیں ہوتی۔

”مقدسات اسلامی“ کی عبارت کی اسلامی قانون میں وضاحت

اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض قوانین میں ”مقدسات اسلامی“ کی عبارت کو استعمال کیا گیا ہے اور اس پر کچھ احکام بار ہوئے ہیں ان قوانین کو واضح ہونے کی اور سماجی سیاست میں ایک صاف وشفّاف حدود کو معین کرنے کے لئے اور افراط وتفریط سے پرہیز کی خاطر، مہربانی فرماکر نیچے دیئے گئے سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) ”اسلامی مقدسات“ کی کیا تعریف ہے؟ کیا اس کے لئے کوئی میزان معین کیا جاسکتا ہے اور اختلافی مصادیق کو اس میزان پر تولا جاسکتا ہے؟ب) کیا ”مقدسات اسلامی“ کو تشخیص دینے کا ذریعہ، عرف(معاشرہ) ہے اور اہل عرف کے وجدان کی طرف مراجعہ کرنے سے اس کے مصادیق کو پہچانا جاسکتا ہے، یا وہ ایسے امور میں سے کہ جس کی شناخت ماہرین اور اہل خبرہ کا کام ہے؟ واضح ہے کہ پہلی صورت میں مقدسات اسلامی کی تشخیص کے لئے منصفہ کمیٹی کی حیثیت، عمومی افکار کے نمائندہ کے عنوان سے ہوگی جبکہ دوسری صورت میں اس کی تشخیص ماہرین کے ذمہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دوسری صورت میں اگر ماہرین کے درمیان موضوع کی تشخیص میں اختلاف ہوجائے تو ایسی صورت میں کیا تکلیف ہوگی؟ج) کیا قرآن وعترت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات اور احکام، آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت پر تنقید کرنا توہین کے مصادیق میں سے ہے؟ کیا علمائے دین کے درمیان رائج طریقے کے علاوہ آیات، روایات، سیرت اور فقہی احکام کا تنقیدی جائزہ لینا ایک طرح کی اہانت ہے؟ بہر صورت نقّاد کی سوء نیّت یا اس کا اہانت کا قصد نہ ہونا، اس امر میں کیا اثر رکھتا ہے؟

جواب:الف: البتہ ”مقدسات اسلامی“ کی عبارت، ہر کلام میں موجود قرائن کے لحاظ سے ایک خاص تشریح اور وضاحت کی محتاج ہوتی ہے؛ لیکن معمولاً جب یہ عبارت استعمال ہوتی ہے تو ان امور کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو تمام دینداروں کی نظر میں محترم ہوتے ہیں؛ جیسے ”خدا“ ، ”آئمہ ھدیٰ علیہم السلام“، ”قرآن شریف“، ”مساجد“، ”خانہ کعبہ“، ”اسلام کے مسلّم احکام“، اور انھیں کی جیسی دوسری چیزیں، ممکن ہے کچھ جگہوں پر مقدسات اسلامی کے معنی اس سے بھی زیادہ وسیع ہوں ۔جواب:ب: موضوع کی تشخیص دینے والے افراد معاشرے کے دیندار لوگ اور مسائل اسلامی سے اشنا افراد ہیں اور ممکن ہے کہ پیچیدہ موارد میں دانشوروں اور دینی علماء کی نظر کی بھی ضرورت ہو۔جواب:ج: اگر تنقید سے مراد قانون اور قانون بنانے والے پر اعتراض ہو تو بے شک یہ توہین کے مصادیق میں سے ہے، اور اگر اس سے مراد ان افراد پر اشکال اور اعتراض ہو جنھوں نے ایسے احکام کو استنباط کیا ہو یا دوسرے لفظوں میں کسی کا استنباط زیر سوال جائے نہ کہ حکم الٰہی، تو مقدسات اسلامی کی اہانت کے مصادیق میں سے نہیں ہوگا۔

خبروں کے انتخاب میں خبرنگار کی لاپرواہی

پیشہ ورانہ خبر رسانی کی خصوصیات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ جس میں ”تیزی“، ”دقت“ اور ”صحت“ پر ایک ساتھ عمل ہونا چاہیے، اگر خبروں کے مضمون یا ہر طرح کی اطلاعات کے مضمون کہ جن میں ایک خبرنگار خبروں کو منتخب کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس انتخاب کو پیشے کے معیار اور کام کے تجربہ کی بنیاد پر انجام پانا ضروری ہوتا ہے، اگر خبروں کے مضمون پر تساہلی سے کام لیا جائے یا اس کو لوگوں تک پہنچانے میں خبروں کی جلدی کواہمیت مدّنظر رکھتے ہوئے نقص یا ضعف وارد ہوجائے تو کیا خبرنگار ذمّہ دار ہے؟ اور کیا مربوطہ اشخاص کی شکایت کی وجہ سے خبرنگار کو ملزم کے عنوان سے عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہوگا اوراس کو جواب دہ ہونا پڑے گا؟

اگر یہ کام تساہلی کی وجہ سے واقع ہوا ہو اور کسی کو حق کے ضائع ہونے کا سبب ہوا ہو تو اس صورت میں خبرنگار ذمّہ دار ہے، لیکن اگر ایسی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو کہ جو عموماً غیر معصومین سے سرزد ہوجاتی ہے تو خبر نگار کی کوئی ذمہ داری نہیںہے لیکن اگر اس کا یہ کام دوسروں کے ضرر اور نقصان کا سبب ہوا ہو تو خبرنگار کے اوپر اس کی تلافی ضروری ہے، کیونکہ جانی اور مالی نقصان میں، عمدی اور خطائی دونوں صورتیں ذمہ داری کا سبب ہوتی ہیں، فرق فقط اتنا ہے کہ عمدی صورت میں سزا بھی ہے لیکن خطائی صورت میں سزا نہیں ہے ۔

دسته‌ها: خبرنگار (صحافی)

با اعتماد اشخاص کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنا

بہت سے اشخاص کہ جوحکومت اسلامی کے معتمد ہیں تو بعض اوقات ان کو لوگوںمیںپہچنوانا ضروری ہے، کیا اس کام کی خاطر ان کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاسکتا ہے، تاکہ وہ معاشرے کی سطح پر پہچانے جاسکیں؟ اس کام کی حدّشرعی کہاں تک ہے؟

اگر بڑھا چڑھاکر پیش کرنے سے مراد بے جا مبالغہ اور بلاوجہ بزرگ نمائی ہو تو جائز نہیں ہے لیکن اگر اس سے منظور ناشناختہ با ایمان اور گرانقدر شخصیت کو پہچنوانا ہو تو نہ یہ کہ یہ کام اچھا ہی ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی