اہل کتاب کی نجاست
کیااہل کتاب نجس ہیں ؟
جواب : احتیاط یہ ہے کہ اجتناب کیا جائے مگر ان لوگوں کے لئے جو باہر کے سفر میں یا اپنے ماحول میں ان کے محتاج ہوں ۔
جواب : احتیاط یہ ہے کہ اجتناب کیا جائے مگر ان لوگوں کے لئے جو باہر کے سفر میں یا اپنے ماحول میں ان کے محتاج ہوں ۔
اگر ان کے اندر اثر کرنے کی امید ہو اور ہتک یا توہین کا باعث بھی نہ ہو تو اس صورت میں جائز ہے۔
اگر جان بوجھ کر اور معلوم ہوتے ہوئے ایسا ہوا ہو تو مرتد ہوجائے گا اور دوسرے لوگوں پر نہی عن المنکر کرنا لازم ہے ۔
کافر کی تیسری اور چوتھی قسم بھی ہے، اس کی تیسری قسم ”کافر معاہد“ ہے، دور حاضر کے وہ بہت سے ممالک ، جن سے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، اس (تیسری قسم) کا مصداق شمار ہوتے ہیں اور جب تک کسی طرح سے بھی وہ ممالک، مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں داخل نہ ہوں، اُن کی تمام چیزیں، جان اور ان کا مال، محترم ہے، اس لئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کے قوانین کے اعتبا رسے ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات ہوگئے ہیں، اس وجہ سے وہ سب، تیسری قسم یعنی ”کافر معاہد“ کے دائرے میں شمار ہوں گے، نیز توجہ رہے کہ کافر معاہد کا وقت محدود نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے اور کافر معاہد ، اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں کافروں کو شامل ہے (یعنی کافر کی تیسری قسم (کافر معاہد) میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں) اور قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ اہل کتاب کو اس وقت کافر ذمّی کا عنوان دیا جائے گا جب وہ اسلامی ممالک کے اندر زندگی بسر کرتے ہوں، لہٰذا جو اہل کتاب کفار اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہیں وہ فقط ”کافر معاہد“ ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں کافر ذمّی کے معاہدہ کا کوئی مطلب نہیں ہے (مگر یہ کہ کوئی کافر نشین ملک خود کو اسلامی ممالک کی پناہ میں دیدے) اس لئے کہ کافر ذمّی کے احکام میں بہت سے ایسے قرینہ موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ احکام، اسلامی ممالک کے اندر رہنے والے، اقلّیتی مذہب والوں سے متعلق ہیں ۔چوتھی قسم، وہ کفار ہیں جو نہ کفار ذمّی کا حصّہ ہیں نہ کافر معاہد اور نہ کفار حربی میں شامل ہیں، حقیقت میں وہ مسلمانوں کے لحاظ سے بالکل بے طرف اور غیرجانبدار ہیں، ان کو غیر حانبدار کا نام دیا جاسکتا ہے، قرآن مجید کی دو آیتوں میں ان کی وضعیت اور صورتحال کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہٴ ممتحنہ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوتا ہے: اور سورہٴ نساء کی آیت ۹۰ میں کفار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا اس بناپر ”القای سلم“ سے مراد، مسالمت آمیز راستہ ہے، معاہدہ صلح نہیں، اس لئے کہ القای سلم کی عبارت، ان ہی معنی سے مناسب ہے اور بعد کی آیت بھی اسی آیت پر شاہد ہے، بہرحال غیرجانبدار کافر کی جان، مال، عزّت آبرو بھی محترم اور محفوظ ہے، اور کفار کی چار قسموں کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کرنے کے لئے، نسبتاً تفصیلی بحث کی ضرورت ہے (جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے
جواب: اگر ان امور کا تظاہر نہ کریں، توختم کرنا جائز نہیں ہے۔
جواب: وحدت وجود کے متعدد معنی ہیں ، وہ معنی کہ جو قطعی طور پر باطل ہے اور سب فقہاء کی نظر میں اسلام سے خارج ہونے کا سبب بنتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی معتقد ہو کہ خداوند ،اس دنیا کی عین موجودات ہے (یعنی خدا الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ یہ موجودات ہی خدا ہیں)اور خالق و مخلوق ، عابد و معبود وجود نہیں رکھتے اسی طرح جنت اور دوزخ بھی اس کے عین وجود ہیں ، اس کا لازمہ بہت سے مسلمات دین سے انکار کا سبب بنتا ہے ، جب بھی کوئی ان لوازم کا ملتزم و معتقد ہوجائے تو اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور دور حاضر کے اکثر فقہاء ، چاہے زندہ ہوں یا فوت کر گئے ہوں (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) نے اس موضوع کو قبول کیا ہے ، اور عروہ کے حاشیہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ان بزرگوں میں سے کوئی ایک بھی وحدت وجود کے جو مذکورہ بالا جواب میں تیسرے معنی بیان ہوئے ہیں، قائل نہیں ہیں اور جو کوئی بھی ان بزرگوںکی طرف ایسی نسبت دیتا ہے وہ جسارت کرتا ہے۔
جواب: اس کی وضاحت یہ ہے کہ وحدت وجود کبھی مفہوم وجود کی وحدت(وجود کے ایک ہونے)کے معنی میں ہے کہ جواشکال نہیں رکھتا اور کبھی وحدت حقیقت(حقیقت کے ایک ہونے) کے معنی میں ہے جیسے سورج کی روشنی اور چراغ کی روشنی کہ دونوں کی حقیقت ایک ہے لیکن مصداق متعددہیں اس میں بھی اشکال نہیں ہے اور کبھی وحدت وجود ، مصداق وجودکی وحدت(یعنی صرف وجود کا مصداق ایک ہے) کے معنی میں ہے اس معنا میں کہ عالم ہستی میں خدا کے وجود کے علاوہ کچھ اورنہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ اس کی عین ذات ہے یہ نظریہ کفر کا مستلزم ہے اور کسی ایک فقیہ نے بھی اس کو قبول نہیں کیا۔
یہ لوگ منحرف ہیں، اگر چہ ظاہرا مسلمان ہیں، لہذا بہتر ہے کہ ان کے ساتھ رفت وآمد نہ رکھیں ،لیکن ان کو ان کے اعتقادات سے واپس پلٹایا جاسکتا ہے ۔
اگر یہ حالت، اس کی عادی حالت ہے (یعنی اس کی عادت ہوگئی ہے) تب وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، لہٰذا اس کی زوجہ کے لئے اس سے جدا رہنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ طبیعی حالت سے خارج ہوجاتا ہے، یا مشکوک ہے کہ طبیعی حالت سے خارج ہوا ہے یا نہیں (مثلاً دیوانگی اس پر طاری ہوئی ہے یا نہیں) تب اس صورت میں اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگے گا نیز پہلی صورت میں اگر وہ شخص توبہ کرلے اور اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے تو وہ عقد صحیح ہے ۔
جواب: ضرورت کے وقت اہل کتاب سے اجتناب واجب نہیں ہے اور اس کے بعد طہارت بھی لازم نہیں ہے۔