زندہ چوہے کے ذریعہ سرایت کرنے کا حکم
اگر زندہ چوہا کھانے کے اندر گرجائے اور زندہ ہی باہر آجائے کیا وہ کھانا پاک ہے؟
جواب: پاک توہے لیکن آلودہ ہے اور بہتر ہے کہ اس کھانے سے پرہیز کیا جائے۔
جواب: پاک توہے لیکن آلودہ ہے اور بہتر ہے کہ اس کھانے سے پرہیز کیا جائے۔
سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر پورے فرش پر کپڑا نہیں پھیرا ہے تونجس نہیں ہے ۔
جواب: نجاست کے مساٴلہ میں قطعی اور سو فیصد یقین ضروری ہے اور جب تک ایسا یقین حاصل نہ ہو تو کوئی تکلیف نہیں ہے اور اگرسو فیصدیقین حاصل ہوجائے تو پرہیز ضروری ہے مگر مجبوری کے وقت۔
یہ لوگ منحرف ہیں، اگر چہ ظاہرا مسلمان ہیں، لہذا بہتر ہے کہ ان کے ساتھ رفت وآمد نہ رکھیں ،لیکن ان کو ان کے اعتقادات سے واپس پلٹایا جاسکتا ہے ۔
ان بزرگوں میں سے کوئی ایک بھی وحدت وجود کے جو مذکورہ بالا جواب میں تیسرے معنی بیان ہوئے ہیں، قائل نہیں ہیں اور جو کوئی بھی ان بزرگوںکی طرف ایسی نسبت دیتا ہے وہ جسارت کرتا ہے۔
جواب: وحدت وجود کے متعدد معنی ہیں ، وہ معنی کہ جو قطعی طور پر باطل ہے اور سب فقہاء کی نظر میں اسلام سے خارج ہونے کا سبب بنتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی معتقد ہو کہ خداوند ،اس دنیا کی عین موجودات ہے (یعنی خدا الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ یہ موجودات ہی خدا ہیں)اور خالق و مخلوق ، عابد و معبود وجود نہیں رکھتے اسی طرح جنت اور دوزخ بھی اس کے عین وجود ہیں ، اس کا لازمہ بہت سے مسلمات دین سے انکار کا سبب بنتا ہے ، جب بھی کوئی ان لوازم کا ملتزم و معتقد ہوجائے تو اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور دور حاضر کے اکثر فقہاء ، چاہے زندہ ہوں یا فوت کر گئے ہوں (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) نے اس موضوع کو قبول کیا ہے ، اور عروہ کے حاشیہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جواب: اس کی وضاحت یہ ہے کہ وحدت وجود کبھی مفہوم وجود کی وحدت(وجود کے ایک ہونے)کے معنی میں ہے کہ جواشکال نہیں رکھتا اور کبھی وحدت حقیقت(حقیقت کے ایک ہونے) کے معنی میں ہے جیسے سورج کی روشنی اور چراغ کی روشنی کہ دونوں کی حقیقت ایک ہے لیکن مصداق متعددہیں اس میں بھی اشکال نہیں ہے اور کبھی وحدت وجود ، مصداق وجودکی وحدت(یعنی صرف وجود کا مصداق ایک ہے) کے معنی میں ہے اس معنا میں کہ عالم ہستی میں خدا کے وجود کے علاوہ کچھ اورنہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ اس کی عین ذات ہے یہ نظریہ کفر کا مستلزم ہے اور کسی ایک فقیہ نے بھی اس کو قبول نہیں کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں، بہائی گری، فقط ایک مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زیادہ تر سیاسی حیثیت کا حامل ہے اور بہت زیادہ قرائن وشواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ غیروں اور دیگر ممالک کے فائدے کے لئے کام کرتے ہیں، بعض مغبی ممالک کے پارلیمنٹ کی طرف سے شدّت سے، ان کا دفاع کرنا، منجملہ ایک قرینہ اور شاہد ہے ، لہٰذا ان حالات میں ان کو ایک ایسے گروہ کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا جو مسالمت آمیز زندگی کا خواہاں ہو،حقیقت میں یہ لوگ محارب ہیں، (یعنی کافر حربی اور حالت جنگ میں ہیں
اگر یہ حالت، اس کی عادی حالت ہے (یعنی اس کی عادت ہوگئی ہے) تب وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، لہٰذا اس کی زوجہ کے لئے اس سے جدا رہنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ طبیعی حالت سے خارج ہوجاتا ہے، یا مشکوک ہے کہ طبیعی حالت سے خارج ہوا ہے یا نہیں (مثلاً دیوانگی اس پر طاری ہوئی ہے یا نہیں) تب اس صورت میں اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگے گا نیز پہلی صورت میں اگر وہ شخص توبہ کرلے اور اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے تو وہ عقد صحیح ہے ۔
جواب : دین کی تحقیق اور کسی مذہب کے عقیدہ کا اظہار یہ دو الگ چیزیں ہیں،اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ سب انسانوںپر ضروری ہے کہ اصول دین کی تحقیق اپنی توانائی بھر کرے اور اگر کسی انسان نے حقیقت میں اپنی کامل تحقیقات اور اہل علم سے پوچھ تاچھ کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کو اختیار کرلیا ہے تو ایسا شخص معذور ہے کیونکہ اس نے شرعی و عقلی فریضہ کو پورا کردیا ہے اگرچہ اس نے خطا کی ہے ، لیکن جو شخص پہلے مسلمان تھا کسی وجہ سے دوسرے مذہب کو اختیار اور اس کا اظہار بھی کرنے لگا تو ایسا شخص مرتد کے حکم میں ہوگا حقیقت میں یہ مرتد کا حکم اسلام کا سیاسی حکم ہے تاکہ دشمن مسلمانوں کو فریب اور اسلامی ماحول میں نفوذ نہ کرنے پائے ۔
اگر وہ شخص خود بخود مدہوش ہوجاتا ہے اور کفر آمیز باتیں کرتا ہے تب تو مرتد نہیں ہوگا ورنہ بصورت دیگر مرتد ہوجائے گا ۔
زوجہ کو اس سے جدا ہوجانا چاہیے، اس پر شوہر حرام ہے اور طلاق کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔