مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

متوفیٰ کے ترکہ کا تمام قرضوںکی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہونا

قرض خواہوں کے متعدد ہونے اور متوفی کی جائداد کا تمام قرضوں کے لئے ناکافی ہونے کی صورت میں ، کیا قرض اور قرض خواہوں کی نوعیت کے لحاظ (ذیل کی شرح کے ساتھ) حق تقدم اور اولویت کے قائل ہوسکتے ہیں:۱۔ زوجہ کا نفقہ اور مہر۔۲۔ کمسن اولاد کا نفقہ۔۳۔ وہ قرض جس کی بابت مقروض کا کچھ مال قرض دینے والے کے پاس بطور رہن اور وثیقہ رکھا ہوا ہے۔۴۔ گھر اور کاروبار کہ جگہ (دفتر وغیرہ) کے خادموں اور کام کرنے والوں کی مزدوری اور تنخواہ ۔۵۔ جو خرچ متوفی کے علاج میںاس کی موت سے پہلے ہوا ہے جیسے ڈاکٹروں کی فیس اسپتال کا خرچ دواخانہ کا قرض وغیرہ۔۶۔ حکومت اسلامی کے قرضے جیسے مالیات (ٹیکس) پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کا بِل۔۷۔ شرعی قرضے (خمس وزکات) اور نماز، روزہ اور واجب حج کو ادا کرانے کے لئے اجیر بنانا۔۸۔ کفن ، دفن اور معمول کے مطابق ایصال ثواب کی مجالس اور فاتحہ وغیرہ کا اخراجات۔

جواب: معمول کے مطابق کفن اور دفن کے اخراجات سب پر مقدم ہےں، لیکن مجالس ترحیم وفاتحہ وغیرہ واجبات میں سے نہیں ہیں، اسی طرح کمسن بچوں کا نفقہ اگر پہلے نہ دیا گیا ہو، قرض میں شمار نہیں ہوتا، نماز وروزہ کے خرچ کو بھی میت کے اموال میں سے نہیں لے سکتے، باقی قرضے ایک صف میں قرار پاتے ہیں لہٰذا ان کو بہ نسبت ادا کیا جائے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

روایت میں ((عول)) کے معنیٰ

مہربانی فرما کر درج ذیل روایت: ”قال الشعبی:” ماراٴیت افرض من علیّ ولا احسب منہ و قدسئل عنہ علیہ السلام وہو علی المنبر یخطب، عن رجل مات وترک إمراتہ وابوین وابنتین، کم نصیب اٴمرئة؟ فقال(علیہ السلام) صار ثمنہا تسعاً، فلقبت بالمسئلة المنبریہ شرح ذلٰک: لابوین السدسان وللبنتین الثلثان، وللمراٴة الثمن عالت الفریضة فکان لہا ۳ من ۲۴ ثمنہا فلما صارت الی۲۷ صار ثمنہا تسعاً فان ثلاثة مِن۲۷ تسعہا ویبقی۲۴ لابنتین ۱۶ و۸ لابوین سَوَاء“ میں جملہٴ ”عالت الفریضہ“ کی وضاحت فرمائیں؟

جواب: مراد یہ ہے کہ شوہر کی میراث میں سے اس زوجہ کا حصہ جس کا شوہر صاحب اولاد ہو، حکم اوّلی کی بناپر ترکہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے لیکن جب والدین اور بیٹیوں کے حصے کے ساتھ جوڑا جائے اور سب کے حصوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو کل ۲۷ حصہ ہوتے ہیں (جب مال کے ۲۴ حصہ کئے جائیں تو ان میں سے دوتہائی ۱۶ حصہ ہوں گے اور چھ میں سے دو، ۸ حصّہ ہوں گے اور آٹھواں حصہ ایک تہائی حصہ قرار پائے گا اور ۱۶ و۸ و۳ سب کو ملاکر ۲۷ ہوجائیں گے) جب بھی ۲۷ حصّوں میں سے تین حصوں کو علیحدہ کیا جائے گاتو وہ کل مال کے نویں حصہ کے برار ہوگا، ا س حدیث کی تفسیر ووضاحت یہی تھی، لیکن تمام احادیث کو پیش نظر رکھ کر فقہی نظریات کے اعتبار سے، اس مسئلہ میں گفتگو کی گنجائش باقی ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

وہ زمین جن کے ملکیت میں آنے کا طریقہ معلوم نہیں

کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

میراث کا حصّہ بخش دینے کے بارے میں شک کرنا

کشمیر کے ایک علاقہ میں مسلمانوں کے یہاں یہ دستور ہے کہ بیٹے اپنے والدین کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اور جب والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو ن کی تمام میراث بیٹوں کے اختیار میں آجاتی ہے، لیکن بیٹیاں جو اپنے شوہروں کے گھر میں رہتی ہیں،اپنے بھائیوں سے، باپ کی میراث کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنا حصہ بھائیوں کو بخش دیتی ہیں، بعض بہنیں جب تک زندہ رہتی ہیں اپنا حصہ اپنی خوشی سے بھائیوں کے اختیار میں دیتی ہیں لیکن بھائی بہنوں کے انتقال کے بعد، بہنوں کی اولاد بھائیوں کی اولاد سے یہ کہتے ہوئے اپنی الدہ کے حصہ کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ہماری ماں نے اپنے والد کی میراث میں اپنا حصہ آپ کے والد کو نہیں بخشا تھا بلکہ ان کے لئے مباح کردیا تھا، جبکہ بھائیوں کی اولاد کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی پھوپھیوں نے ان کے والد کو اپنا حصہ بخشدیا تھا یا ان کے لئے مباح قرار دیا تھا، اس صورت میں بھائیوں کی اولاد کا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: اگر اس مال ودولت کا بھائیوں کے لئے، بخش دینا، ثابت نہ ہوسکے تو بہنوں کا حصہ اُن کے وارثوں کوضرور دینا چاہیے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

شوہر کے تحفہ زوجہ کو

کیا وہ مختلف لباس، زیوارت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، جو اپنی زندگی میں شوہر نے اپنی زوجہ کے لئے خریدی ہیں، زوجہ کی ملکیت ہیں یا شوہر کا مال ہے جو وارثوں کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے؟

جواب: جب کسی مقام پر، رواج یہ ہو کہ لباس اور زیوارت، زوجہ کو ہبہ کرتے ہیں توزوجہ کی ملکیت ہیں اور اگر کسی جگہ پر یہ دستور ہو کہ یہ چیزیں امانت کے طور پر زوجہ کے پاس ہوتی ہیں اور وہ فقط شوہر کی زندگی میں انھیں استعمال کرسکتی ہے تب تما م وارثوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، لیکن عام طور پر زوجہ کی ملکیت میں دیتے ہیں ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

میراث کے حصّہ کو ہبہ کرنے کا دعویٰ

جب بہن بھائی دونوں، اپنے والد کے وارث ہوں اور میراث کا مال بھائی کے اختیار میں رہے یہاں تک کہ بہن بھائی دونوں کا انتقال ہوجائے، اس کے بعد بہن کے وارث کہیں کہ ہمارا حصہ دو لیکن بھائی کے وارث جواب دیں کہ بہن نے اپنا حصہ بھائی کو ہبہ یا فروخت کردیا تھا، اس سلسلہ میں وظیفہ کیا ہے؟

جواب: اگر رشتہ دار، جان پہچان والوں اور جانکاروں سے پوچھ تاچھ اور دریافت کرنے کے بعد بھی مسئلہ واضح نہیں ہوا تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ دونوں کے وارث آپس میں مصالحت کریں البتہ اگر وارثوں میں، نابالغ بچہ نہ ہو ورنہ احتیاط یہ ہے کہ نابالغ بچہ کے حق کی رعایت کی جائے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی